--------------------------------------------------------------------
حدیث شریف ہے کہ
حیاء اور ایمان دونوں ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔ان میں سے کوئی ایک بھی اٹھ جائے تو دوسرا بھی خود بخود اٹھ جاتا ہے۔
( راوی حضرت ابن عمر بہیقی فی شعب الاایمان140/6 حدیث 7727 )
آنچل کی ہوتی موت کو دیکھ کر شاعر کہتا ہے ۔
" جلتے ہوئے آنچل کو کچھ اور ہوا دیجئے
اب راکھ بنا دیجئے سب کچھ ہی جلا دیجئے"
کوئی پردہ کرے یا نہ کرے مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں ہر بندے نے اپنی قبر میں جانا ہے مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ
جب گھر کے مردوں کی غیرت سو جاتی ہے تو ان کے گھروں کی خواتین میں آزاد ہونے کا خیال جاگ اٹھتا ہے !
آزادئ نسواں آخر صرف پردہ اتروانے تک کیوں محدود ہے ؟
آزادئ نسواں کا مطالبہ اس حد تک ٹھیک ہے کہ عورت کو تعلیم کا حق حاصل ہو ،
ایک بہن، بیوی اور بیٹی کی صورت میں تحفظ حاصل ہو اور پیار و محبت ، شفقت کا سلوک میسر ہو ،
آزادئ نسواں کا مطلب اخلاقی بےراہ روی نہیں ہونا چاہئے!!!
مغرب کی نقالی میں یہ مت بھولیں کہ آپ ایک مسلمان بھی ہیں اور اسلام وہ پاک مذہب ہے جس نے
عورت ذات کو اس وقت عزت دی جب پوری دنیا میں عورت کو پاؤں کی جوتی سے بھی بد تر سمجھا جاتا تھا ،
ایک وقت تھا دوپٹہ صنف نازک کی پہچان تھا مگر آج یہ صنف نازک کے لیے وبال جان بن چکا ہے۔ بازار ہو یا شادی کا فنکشن یا کوئی ٹی وی چینل غرض جس جگہ بھی ملاحظہ فرمائیں خواتین دوپٹے سے جان چھڑاتی نظر آتی ہیں۔دوپٹہ عورت کے لباس کا ایک اہم جز ہے مگر بدن صنف نازک پر یہ ایک لاوارث لاش کی طرح پڑا نظر آتا ہے۔
پتا نہیں عورت ذات کو آنچل سے کیا الرجی ہو گئی ہے؟ ایک وقت تھا کہ یہ رنگین آنچل ماحول کو رنگین بناتے تھے۔
آنچل سے ماحول سات رنگی ہو جاتا تھا۔آج دوُپٹہ ایک فیشن ہے پردہ نہیں۔
آج کی صنف نازک چند نام نہاد آرڈیننس کا سہارا لیکر اپنے آپ کو ایکسپوز کروا رہی ہیں۔ایک طرف تو یہ خواتین اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتی ہیں دوسری طرف اس قسم کے فیشن اور رسمیں اللہ اکبر۔ کوئی درمیانہ راستہ ہی اختیار کر لیں۔
دوپٹہ تو چلو گیا سو گیا اوپر سے قمیض کے بازو بھی غائب ہو رہے ہیں۔ زرا دیکھیں اور فیصلہ کریں کہ میں سچ کہہ رھا ہوں یا نہیں۔ ایک دن آئے گا کہ بدن پر چند برائے نام کپڑے ہی ہوں گے جو فیشن کہلائے گا۔
میڈیا اور یہ رئیس لوگ اس کام میں پیش پیش ہیں۔ خواتین میڈیا کی اندھا دھند نقالی کرتی ہیں بلکہ اسکو اختیار کرنا باعث فخر سمجھتی ہیں۔
ایک طرف وہ عورت ہے جو حجاب کی وجہ سے شہید کر دی جاتی ہے اور ایک طرف یہ عورتیں ہیں کہ بدن پر کپڑے کم سے کم کرتی جا رہی ہیں۔
عورتوں کی اس حالت کے مرد بھی برابر کے زمےدار ہیں جو پردے کے ذکر پر کہتے ہیں کہ ہماری بیوی نیک ہے ، ہمیں اپنی بیوی پر پورا بھروسہ ہے اور پردہ تو نظر کا ہوتا ہے ، یہاں تک دیکھنے اور سننے میں آیا ہے کیہ بعض مردوں نے اپنی با پردہ بیوی کو مجبور کر کے برقعہ اتروا دیا .
اب کوئی ان مردوں سے یہ تو پوچھے کہ انکی بیوی جتنی بھی نیک پارسا ہو ، امہات المؤمنين سے بڑھ کر تو نیک ، پارسا اور عبادت گزار تو ہر گز بھی کسی صورت بھی نہیں ہو سکتی ، جب امہات المؤمنين کو بھی پردے کا حکم تھا تو پھر آج کی عورت کو کیوں نہیں؟
اور پھر عورت کے لفظی معانی ہی پردے کے ہیں !!!
عورت وہ چاند نہیں ہونا چاہئے جس کو ہر کوئی بےنقاب دیکھے
بلکہ عورت وہ سورج ہونی چاہئے جسے دیکھنے سے پہلے ہی آنکھ جھک جاۓ !
الله پاک کا فرمان ہے
اے نبی(صلى الله عليه وسلم) ، مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ، یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے،جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر رہتا ہے۔اور اے نبی(صلى الله عليه وسلم) ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں ، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ، اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اس کے جو خود ظاہر ہو جائے، اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں ۔ (النور۔۔۔ ۳۱)
---------------------------------------------------------
توبہ کیجئے ! اللہ کو آپ کی توبہ کا انتظار ہے .آپکی توبہ سے آپکے گناہ نیکیوں میں تبدیل ہو جائیں گے اللہ کا وعدہ ہے، دیکھئے سورہ الفرقان آیت نمبر 70
إِلّا مَن تابَ وَءامَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صٰلِحًا فَأُولٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّـٔاتِهِم حَسَنٰتٍ ۗ وَكانَ اللَّهُ غَفورًا رَحيمًا ﴿٧٠﴾
مگر جس نے توبہ کر لی اور ایمان لے آیا اور نیک عمل کیا تو یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ جن کی برائیوں کو نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے ۔
No comments:
Post a Comment